Posted in Army, Pakistan, Pakistan Air Force

پاک فضائیہ کا اسکواڈرن نمبر ۱۹ اور ۱۹۶۵ کی جنگ

پاک فضائیہ کا اسکواڈرن نمبر ۱۹ اور ۱۹۶۵ کی جنگ

پاکستان ڈائری

پاک فضائیہ کا 

اسکواڈرن نمبر ۱۹ اور ۱۹۶۵ کی جنگ

پاکستان ائیرفورس کے اس اسکواڈرن نمبر ۱۹ نے ۱۹۶۵ کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا اور دشمن کے دانت کھٹے ہوگئے ہیں۔پاک فضائیہ نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو زیر کردیا اور فضائی تاریخ میں یہ معرکہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔پاک فضائیہ نے نا صرف پاکستان آرمی کی پیش قدمی کے لئے راہ ہموار کی بلکے دشمن کی نقل حرکت پر بھی نظر رکھی اور ان کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔اس ضمن پاک فضائیہ کے اسکواڈرن نمبر ۱۹ کا کردار بہت اہم رہا۔یوم دفاع اور یوم فضائیہ کے موقع پر ہم اس ہی اسکواڈرن کے حوالے سے بات کریں۔۱۹۶۵ کی جنگ میں اس اسکواڈرن نے جس کی قیادت سجاد حیدر کررہے تھے لاہور پر بھارتی ائیرفورس کے حملے کو ناکام بنایا اور انکو پیش قدمی سے روک دیا۔نمبر ۱۹ اسکواڈرن نے ۱۹۶۵ کی جنگ میں مشکل ترین مشن انجام دئے اورفضائی تاریخ میں ایسے معرکے رقم کئے جن کی مثال ملنا مشکل ہے۔اسکواڈرن نمبر ۱۹ پاک فضائیہ کا فائٹر اسکواڈرن ہے۔

اس اسکواڈرن کا قیام یکم فروری ۱۹۵۸ کو ماڑی پور میں عمل میں لایا گیا اس وقت اسکا حصہ ایف ۸۶ طیارے تھے۔۱۹۶۳ میں اس کی کمانڈ اسکواڈرن لیڈر سجاد حیدر کو دی گئ وہ پاک فضائیہ کے ماہر پائلٹس میں سے ایک تھے۔۱۹۶۴ میں اس اسکواڈرن کو پشاور منتقل کردیا گیا اور اس میں سعد حاتمی اور مسعود حاتمی جیسے ماہرپائلٹس بھی شامل ہوگئے۔سجاد حیدر کی قیادت میں یہ اسکواڈرن ابھر کر سامنے آیا۔

رن آف کچھ کے بعد سے جنگ کے بادل منڈلا رہ تھے ۔ائیر مارشل نورخان پاک فضائیہ کی قیادت سنبھال چکے تھے اور انہوں نے فوری طور پر اقدامات کا آغاز کیا۔ابھی جنگ کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اسکوڈارن نمبر ۵ سے تعلق رکھنے والے اسکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی نے بھارت کے چار وئمپائر طیاروں کو نشانہ بنایا جس میں سے دو انہوں نے تباہ کئے اور ایک انکے ساتھی امتیاز بھٹی نے تباہ کیا۔یوں پاک فضائیہ کو نفسیاتی طور پر بھارتی ائیرفورس پر برتری حاصل ہوگئ۔

تین ستمبر کو پھر معرکہ ہوا فلائٹ لفٹینٹ یوسف نے اپنے ایف ۸۶ سیبر طیارے کے ساتھ بھارتی ائیر فورس کے چھے نیٹ طیاروں کا مقابلہ کیا۔۱۳ ستمبر کو انہوں نے بھارتی نیٹ مار گرایا ۔۴ ستمبر تک زیادہ تر آپریشن سرگودھا سے ہوئے تاہم چھ ستمبر ۱۹۶۵ اسکواڈرن نمبر ۱۹ پشاور کا دن تھا۔

سب سے پہلے اسکوڈارن ۱۹ کو سیالکوٹ کے محاذ پر چھ ایف ۸۶ سیبرطیاروں کے ساتھ پہنچے کا حکم دیا گیا تاکہ بھارتی انفینڑی مشن گینز اور ٹینکوں پر حملہ کیا جائے۔اسکواڈرن نمبر ۱۹ کو جب یہ خبر ملی کہ ہندوستان نے لاہور پر حملہ کردیا ہے تو انکا اولین دفاع لاہور تھا۔ اسکواڈرن نمبر ۱۹ نے لاہور شہر پرنچلی پروازیں کی اور ٹارگٹ کو تلاش کیا۔واہگہ کراس کرکے دشمن کے قافلوں اور بھارتی ٹنیکوں پر بمباری کردی۔اس حملے میں اسکواڈرن لیڈر سجاد کو اسکواڈرن لیڈر مڈل کوٹ نے ایف ۱۰۴ لڑاکا طیارے کے ساتھ معاونت دی ۔

اس فارمیشن نے بھارتی جہازوں ، ٹنیکوں ، چوکیوں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا۔اس فارمشین نے جی ٹی روڈ پر شدید حملہ کیا اور دشمن کولاہور کی طرف بڑھنے سے روکا۔اس حملے میں بھارت اسلحہ اور فوجی گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔اس مشن سے کامیاب واپسی کے بعد ری فیولنگ کی گئ اور اس فارمیشن کو ہدایت ملی کہ ۸ سیبر طیاروں کے ساتھ پٹھان کوٹ پر کھڑے طیاروں پر حملہ کیا جائے۔اس کی سربراہی بھی اسکواڈرن لیڈر سجاد نے کی۔اسکواڈرن کے پاس پٹھان کوٹ ائیربیس کے حوالے سے کوئی بھی معلومات نہیں تھیں۔تاہم پھر بھی اس فارمیشن کو کمانڈ کرتے ہوئے سجاد حیدر نے حملہ کیا۔

پاک فضائیہ کی طرف سے پٹھان کوٹ پر یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ہندوستان کے تمام طیارے تباہ ہوئے جن میں  ۲مگ ۲۱ بھی شامل تھےبھارت کی ایک پوری اسکواڈرن کو پاک فضائیہ نے پٹھان کوٹ حملے میں تباہ کردیاپٹھان کوٹ کے معرکے میں  بھارتی فضائیہ کے دس طیارے جن کا تعلق اسکواڈرن نمبر ۳ سے تھا،نمبر ۳۱ کے دو طیارے،چھ طیارے مسٹریز اور دو مگ ۲۱ اور ایک فئیر چائلڈ پیکٹ تباہ ہوئے۔

یوں ۱۹۶۵ کی جنگ میں اسکواڈرن نمبر ۱۹ نے اپنا سکہ جما لیا اور اس اسکواڈرن نے ۱۹۶۵ کی جنگ میں ۵ تمغہ جرات حاصل کئے۔ اسکواڈرن نمبر ۱۹ نے ۷۰۶ گھنٹے پرواز کی اور ۵۵۴ سورٹیز کیری کی۔دشمن کے چودہ جہاز اور ۷۴ ٹینک تباہ کئے۔ گاڑیاں مشن گنز اور اسحلہ اس کے علاقہ تھا۔اس کے بعد یہ اسکواڈرن پشاور سے اسکو مسرور شفٹ کردیا گیا۔

۔اس کے ساتھ ۱۹۶۶ میں اس ہی اسکواڈرن نے فلائٹ سیفٹی ٹرافی شیرافگن ٹرافی اور بہترین اسلحہ بردار اسکواڈرن کیے اعزازت اپنے نام کئے۔اب ایف سولہ اس اسکواڈرن کا حصہ ہیں۔۱۹۶۵ کی جنگ میں جو جرات اور بہادری کی داستانیں اس اسکواڈرن نے رقم کئ وہ آج بھی زندہ و جاوید ہیں اور یہ اسکواڈرن فاٗٹٹر پائلٹس کے لئے تربیت گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔۱۹۶۵ کے ہیرو سجاد حیدر اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور نئے پائلٹس کے لئے مشعل راہ ہیں کہ کس ساتھ کورڈینشن کے ساتھ حملہ کرکے دشمن کے دانت کھٹے کئے جاسکتے ہیں۔ ان کی سوانح عمری شاہین کی پرواز میں بہت سے حقائق درج ہیں اس کا مطالعہ ضرور کریں ۔ہمارے شہدا اور غازیوں کو سلام

Posted in media, Pakistan

ٹک ٹاک، ہنی ٹریپ اور پاکستان

تحریر جویریہ صدیق 

میں اتنی قدامت پسند تو نہیں کہ تفریح کو بند کرنے کی بات کرو لیکن اتنی روشن خیال بھی نہیں کہ بے حیائی کو تفریح مان کر اس سپورٹ کرو۔ٹک ٹاک ایک نئ وباء جس نےپاکستان میں لپیٹ میں لے لایا ہے۔جس کا دل کرتا ہے کچھ بھی بنا کر پوسٹ کردیتا ہے ۔بچے بڑے بوڑھے خواتین عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں، گانوں پر ناچ، ڈائلاگز پر اداکاری تو کسی بھی اجنبی کے ساتھ ویڈیو جوڑ کر مکالمہ یا ناچ گانا یہ ٹک ٹاک کی پٹاری جس میں بہت کچھ ہے۔بچوں کے لئے تو بلکل مناسب ایپ نہیں لیکن اکثر ماں باپ غافل ہیں کہ بچے کیا کررہے ہیں ۔

ٹک ٹاک کی دنیا میں وہ لوگ بھی کود پڑے جو پہلے بازار حسن کی زینت تھے چونکہ بازار ختم ہوگئے تو یہ عام علاقوں میں چھپ کر اپنا کاروبار کرنے لگے ان کے گاہک بظاہر اس معاشرے کے مہذب افراد کہلاتے ہیں ۔ان افراد نے اپنے بزنس کے پھیلاو کے لئے ٹاک ٹاک کا خوب استعمال کیا یہاں تک کہ کچھ اس ملک کی ان ہستیوں تک پہنچ گئ جو خود کو اس ملک کا کرتا دھرتا کہلاتے ہیں ۔
images (6)
گاہک اور طوائف کے درمیان بھی کچھ راز داری کی شرائط طے ہوتی ہوگی لیکن اگر پیسے لے کر تماشا سرعام لگا دیا جائے تو اس کو بلیک میلنگ کہتے ہیں ۔اب یہ ہنی ٹریپ کسی کے ایماء پر کیا گیا یہ بھنورے عادت سے مجبور پھولوں پر منڈلانے لگے یہ تو سوچنے کی بات ہے لیکن اگر ملک کی اشرافیہ خود کو ٹاک ٹاک کے لیول تک گرا لے گی تو یہ ان کے عہدے کی توہین ہے۔بعض پھول دیکھنے میں تو خوشنما ہوتے ہیں لیکن جب مکھے اور بھنورے ان کے پاس آتے ہیں تو یہ پھول انکو سالم نگل جاتے ہیں ۔
پاکستان میں بہت سے ہنی ٹریپ طاقت کے ایوانوں میں دیکھے گئے ۔کچھ میں معاملہ پیسوں سے ختم ہوگیا تو کچھ میں شادیاں کرنی پڑ گئ جوکہ بعد میں طلاق کی نہج پر پہنچ کر ختم ہوگئی ۔مرد ہے دل تو رکھتا ہے زرا سا چلبلا پن دیکھا، زرا سی خوبصورتی اور شرارت دیکھی دل پھسل گیا بعد میں مذہبی حدود توڑنے کے بعد پریشانی پشیمانی ہی ملی۔ہمارے ہاں مرد سمجھتا ہے اسکو سب کرنے کی اجازت ہے وہ بیوی کے ہوتے ہوئے گرل فرینڈ، دوستیں اور رکھیل رکھ سکتا ہے ۔لیکن ایسا نہیں ہے مرد صرف دوسرا نکاح کرسکتا ہے وہ بھی جب وہ دونوں میں 
برابری کرسکے ۔
 مرد کو صرف اپنی شریک حیات تک محدود رہنا چاہئے جو مرد اخلاقی سماجی اور مذہبی حدود کو توڑ کر ناجائز تعلقات استور کرتے ہیں اس کا خمیازہ نا صرف وہ بلکے انکی اگلی نسل بھی انکے اثرات سے محفوظ نہیں رہتی ۔اس لیے مرد اپنی شریک حیات کا دل نہ توڑے جو پابندی عورت پر ہے وہ ہی مرد پر ہے زنا دونوں کے لئے حرام ہے۔
گندی صحبت انسان کو گندا کردیتی ہے پہلے لوگوں سے فائدہ لینا ،انکے پیسے پر عیش کرنا ،ان سے دوستیاں کرنا بعد میں ان کے پیغامات ریکارڈ کرکے پھیلا دینا، پھر عورت کارڈ کھیلنا اور یہ کہنا کہ پاکستان میں عورت محفوظ نہیں مکاری کی انتہا ہے۔لکھنو کی طوائفوں کے پاس لوگ تہذیب سیکھنے جاتے تھے شاید ڈیجیٹل طوائفوں کے کوئی اصول نہیں ۔
Posted in child-sexual abuse, human-rights

بچوں کو جنسی تشدد سے بچائیں

تحریر جویریہ صدیق 

 

پاکستانی بچے جنسی تشدد کا شکار ہورہے اور معاشرتی خاموشی و سکوت اس برائی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔عام طور پر خاندان بچے کو قصوروار ٹھہرا کر اسے خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔جبکے یہ بات یاد رکھنی چاہیے ایک معصوم بچہ جوکہ باہر کی دنیا کی گندگی اور خطرات سے واقف نہیں آپ اسکو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے۔حال ہی میں ایک پھر قصور شہر میں تین بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا ۔جو حکومت اور پولیس کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہیں کہ بچے اغوا ہورہے ہیں قتل ہورہے ہیں لیکن عوام کی کوئی شنوائی نہیں ۔
یہاں پر یہ سوال بھی جنم دیتا ہے کہ ہمارے بچوں کو کس کس سے خطرہ ہے اور ہم انہیں جنسی تشدد سے بچا کیسے سکتے ہیں۔
اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جنسی تشدد سے مراد کیا ہے اٹھارہ سال سے کم عمر انسان بچہ ہے کوئی بھی بالغ شخص بچے کے پوشیدہ اعضاء کو ہاتھ لگایے،چومے،بچے کےاعضاء دیکھے،بچے کی برہنہ ویڈیو بنایے،جنسی زیادتی کرے یا بد فعلی یا بچوں کو مجبور کرے کہ بالغوں کے اعضا کو ہاتھ لگایے یہ سب جنسی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ عام طور پر ۵ سے ۱۲ سال کی عمر کے درمیان بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
بچے صرف باہر ہی جنسی تشدد کا نشانہ نہیں بنتے بلکے گھر میں بھی یہ خطرہ ان پر منڈلاتا ہے بہت سے بچے اپنے انکلز،رشتہ داروں، گھروں میں ملازموں ،کزنز اور کچھ کیسز میں خواتین کی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔کچھ بچےسکولز،ٹیوشنز،دوکاندار،محلے داروں ،اپنےمذہبی اساتذہ،وین بس اور کار ڈرایور کی حیوانیات کا شکار بن جاتے ہیں۔یہ بات لازم نہیں کہ بچے پر حملہ کویی عادی مجرم کرے گا بظاہر بہت شریف نظر آنے والے افراد اس مکروہ فعل کو انجام دیتے ہیں۔یہ مسلہ تمام سماجی طبقات کا مسلہ ہے۔
اس تمام صورتحال سے بچانے کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا ہوگی۔ہمیں بچوں کو انکے جسم کے حوالے سے اور اپنی حفاظت کیسے کی جایے اس بارے میں انہیں مکمل اگاہی دینا ہوگی۔
بچوں کو یہ بتایا جایے کہ انکے جسم کے پوشیدہ حصے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔صرف ان کی ماما انہیں نہلا اور کپڑے تبدیل کرواسکتی ہیں اس کے علاوہ نانی دادی بڑی بہن یا ملازمہ وہ بھی والدین کی اجازت کے بعد یہ کام کرسکتی ہیں۔ ورکنگ خواتین کے بچوں کی زمہ داری اکثر انکے گھرکام کرنے والوں پر ہوتی ہے۔تاہم آپ اپنے ملازمین پر بھی مکمل اعتماد نہیں کرسکتے اپنے گھر کے بڑوں کو کہیں کہ انکی نگرانی میں بچے کے کام کیے جایں،اگر ورکنگ لیڈیز کا بجٹ اجازت دیتا ہے تو وہ بچوں کے کمرے اور لاونچ میں کیمرہ لگا لیں تاکہ دفتر سے بھی وہ اپنےبچے پر نظر رکھ سکیں۔اگر یہ سب ممکن نا ہو تو اپنے آفس والوں کو قائل کریں کہ آفس میں بچوں کی نرسرئ ہونی چاہیے تاکہ کام کے ساتھ ساتھ خاتون اپنے بچے کا بھی مکمل خیال کرسکے۔یہاں پر ایک بات کرنا بہت ضروری ہے کہ بچہ صرف ماں کی زمہ داری نہیں باپ بھی اسکی پرورش اور حفاظت کا مکمل ذمہ دار ہے۔
بچوں کو یہ بتایا جایے اگر انکوکوئی ہاتھ لگایے جس سے انکو برا محسوس ہو یا کویی انکے پوشیدہ حصے ( گھر میں ان اعضا کا آپ جو بھی نام لیتے ہیں اس ہی نام سے انہیں بتایں) کو ہاتھ لگایں تو وہ فوری طور پر آپ کوبتایں، شور مچا دیں اور اس جگہ سے بھاگ جایں اور سیدھا آپ کو شکایت کریں۔اگر آپ گھر پر نہیں ہیں تو آپ کو فون پر اطلا ع کریں یا گھر میں موجود کسی اور بڑے کو اعتماد میں لیں۔
بعض اوقات اگر کویی بچہ جنسی تشدد کا شکار ہو تو وہ خود کو مجرم محسوس کرنے لگتا ہے اور سہم کر رہ جاتا ہے۔جب بچے کا خوف زیادہ بڑھ جایے تو اس میں یہ علاماتیں نظر آنے لگتی ہیں۔بچے کی نیند خراب ہوتی ہے، وہ ڈرتا ہے، بستر گیلا کرتا ہے، گھر سے باہر جانے سے انکار کرتا ہے۔ سکول نا جانے کی ضد کرتا ہے بولنا کھیلنا کم کردیتا ہے۔ جلدی تھک جاتا ہے۔ ڈیپریشن کا شکار ہوجاتا ہے ،بعض اوقات بہت غصہ کرتا ہے اس کا جسم درد کرتا ہےاور جنسی زیادتی کی صورت میں اسکے نازک اعضاء سے خون رستا ہے اور زخم بھی ہوتے ہیں۔بعض اوقات بچہ خودکشی تک پر آجاتا ہے۔یہ علامات مختلف ایج گروپ میں مزید مخلتف ہوسکتی ہیں۔
اس صورتحال میں ماں یا باپ میں سے کویی بھی ایک بچے کو اعتماد میں لے کر ساری صورتحال کا پتہ کرے ۔اس کے لیے ماہر نفیسات کی بھی مدد لی جاسکتی ہے۔والدین خود بھی انٹرنیٹ سے مواد حاصل کرکے بچے کی مدد کرسکتے ہیں۔کرییر دولت سب انسان حاصل کرسکتا ہے لیکن صحت مند اولاد ہر بار نصیب نہیں ہوتی۔ جنسی تشدد کسی بھی بچے کو نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔اس لیے اپنے بچوں کو مکمل وقت دیں انہیں اپنا دوست بنایں تاکہ وہ اپنے دل کی ہر بات آپ سے کر سکیں۔
اگر بچہ خدانخواستہ جنسی تشدد کا شکار ہوگیا ہے تو اس کے علاج کے ساتھ اس کو روزمرہ زندگی کی طرف واپس لاییں اسکو سکول خود چھوڑ کر آئیں اور واپسی پر بھی خود لیں۔اگر اسکے ساتھ بیٹھنا بھی پڑے تو ساتھ بیٹھیں ،اسکو خود پارک لے کر جاییں اسکے ساتھ کھیلیں۔اسکو مکمل توجہ دیں اور اسکی بات سنیں۔اس ضمن اساتذہ بھی بہت بڑا رول ادا کرسکتے ہیں اور بڑے بہن بھایی بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔یہ بات رکھیں بچہ اور بچی دونوں خطرے کی زد میں ہوتے ہیں تو دونوں کو مکمل تعلیم دی جایے کہ کس طرح سے وہ اپنی حفاظت کو یقینی بنایں۔بچوں کو اس بات کی تلقین کریں کہ وہ  ملازم رشتہ داروں اور اجنبیوں سے مناسب فاصلہ رکھیں کسی بھی شخص کی گود میں نا بیٹھیں اور آپ کی اجازت کے بنا کسی سے تحفہ نالیں۔اگر والدین گھر پر نہیں باہر گئے ہوئے ہیں تو بچوں کو نانا نانی دادا دادی یا بڑے بہن بھایی کے پاس چھوڑ کر جائیں انہیں ملازموں کے ساتھ اکیلا نا چھوڑیں۔آٹھ سال سے بڑے بچوں کو اپنی حفاظت کے حوالے سے کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔کبھی بھی اپنے بچے کو بازار ٹیوشن اور پارک اکیلا نا بھیجیں۔
رابعہ خان ماہر نفسیات ہیں 12 سال سے وہ اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ فیس بک پر اپنے پیج Healing-Souls-Rabia-Khan
سے شہریوں کو آگاہی فراہم کرتی ہیں ان کے مطابق اکثر بچے اس وجہ سے بھی جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں جب انہیں گھر سے مکمل توجہ نہیں مل رہی ہوتی ۔ان پر جنسی تشدد کرنے والا شخص اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ بہت عرصہ انکے گھر میں یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں ہوگی نا ہی یہ بچہ خود بول سکے گا ۔بچے کو وہ شروع میں اپنے قریب کرنے کے لئے چاکلیٹ ٹافیوں آئیس کریم اور دیگر تحائف کا استعمال کرتا ہے جب بچے کا اعتماد جیت لیتا ہے اسکے بعد اپنے جال میں پھنس لیتا ہے۔وہ کہتی ہیں ۔
ماں باپ کو چاہیے وہ بلاوجہ بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ نا کریں انہیں اعتماد دیں ۔اگر بچہ کسی چیز سے انکار کررہا ہے تو اسکے انکار کو زبردستی اقرار میں تبدیل نا کریں اور وجہ جانیں بچہ منع کیوں کررہا ہے۔بچے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے وہ اتنی کم عمر میں کہانیاں نہیں بنا سکتے ۔والدین اپنی سوشل لائف ورکنگ لائف میں سے اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نکالیں ۔
رابعہ خان کہتی ہیں بعض اوقات سب تعلیم اور آگاہی کے باوجود بچے جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ بچے معصوم ہیں اور انکی تاک میں بیٹھے لوگ شاطر ہیں ۔والدین تب بھی بچے کو الزام نہیں دے سکتے ۔سانحے کی صورت میں بچے کی بحالی پر مکمل توجہ دیں وہ علاج کے بعد دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ جائے گا۔
ہم میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد اور سول سوساسٹی کے ممبرا ن بھی اس ضمن بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کسی بچے کو بھی تکلیف میں دیکھ کر ہم اس کے والدین کو رازداری سے آگاہ کرسکتے ہیں۔کسی بھی بچے کو اکیلا دیکھ کر اسکے گھر تک پہنچا سکتے ہیں اور اسکے والدین سے یہ گزارش کریں کہ بچے کو اکیلا باہر نا بھیجیں۔اسکے ساتھ اپنے اردگرد بہت سے والدین کو اس حوالے سے آگاہی دیں کہ انکا بچہ گھر اور باہر کن خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔یہ سانحہ کسی بھی عمر کے بچے کے ساتھ پیش آسکتا ہے بچہ کبھی بھی یہ سانحہ بھول نہیں پاتا اس لیے اسکو چپ یا خاموش کرنا مسلے کا حل نہیں ہے۔اسکو قصوروار نہیں ٹہرنا چاہیے اس کے ساتھ نرمی برتے ہویے اسکے علاج اور مکمل بحالی طرف توجہ دینا چاہیے ۔بچوں کو خطرہ صرف باہر نہیں گھر میں بھی موجود کچھ افراد سے ہوتا ہے یہ بہت چالاکی سے بچوں کا پھنس لیتے ہیں اس لیے اپنے بچوں کا مکمل خیال کریں۔ہمارے بچے اور بچیاں دونوں خطرے کی زد میں ہیں ہم سب مل کر ہی ان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔جنسی تبدیلیوں اور تولیدی صحت پر بات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔بلوغت کے دور سے گزرنے والوں بچوں کو ماں باپ کی خصوصی ضرورت ہے انہیں جسمانی تبدیلوں کے بارے مکمل اگاہی دیں انکے سرکل پر نظر رکھیں انکی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کو بھی اپنے علم میں لایں کہیں انکو کویی بلیک میل تو نہیں کررہا۔اپنے بچوں کی مالی ضروریات اور جذباتی خواہشات کا خیال کریں تاکہ وہ استحسال کا شکار نا ہوسکیں۔آخر میں ایک بہت ضروری گزارش اگر کوئی بچہ یا بچی جنسی تشدد کا شکار ہوجائے تو اس کے لئے انصاف کی آواز اٹھانے سے پہلے اس بچے اور بچی اسکے خاندان کی پرایویسی کا خیال کریں اس کی
تصاویر اور شناخت نا ظاہر کریں ۔

— جو بچے غربت کے باعث گھروں سے دور ہیں وہ جنسی زیادتی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں یہاں پر لڑکے اور لڑکی دونوں اس کی زد میں آتے ہیں ۔جس کا واحد حل یہ ہے کہ ان بچوں کو حکومت اور مخیر حضرات ملازمتوں سے ہٹائیں اور ان کی تعلیم کھانے پینے اور رہائش کا بندوبست کریں ۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے غلیظ لوگوں کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ دیگر لوگ یہ مکروہ فعل کرنےکی ہمت نہ کریں ۔

IMG-20171001-WA0229IMG-20171001-WA0228IMG-20171001-WA0230

 

 

 Javeria Siddique
 Journalist and Photographer  
 Turkish Radio and Television Corporation 
 Author of Book on Army Public School Attack Peshawar 
Posted in health, Javeria Siddique, Pakistan, rain

ڈینگی بخار احتیاط واحد حل تحریر جویریہ صدیق

Screenshot_20190903-233809_Chrome
تحریر  …..جویریہ صدیق…..
ڈینگی بخار نے آج کل پھر عوام کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ہے ،کراچی، راولپنڈی، ملتان اور پشاور کے عوام اس بخار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئےہیں ۔
ڈینگی بخار کا علاج اگر بروقت نا کروایا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، ڈینگی بخار مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، یہ مچھر صاف پانی پر افزائش پاتا ہے اور اس کے کاٹنے سے انسان ڈینگی بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
یہ مچھر زیادہ تر گھروں میں افزائش پاتا ہے، اس مچھر کی ایک مخصوص پہچان ہے اس کے جسم پر سیاہ سفید نشان ہوتے ہیں، ڈینگی پھیلانے والا مچھر زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے، اس مچھر کے کاٹنے سے ہر سال کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ڈینگی چھوت کی بیماری نہیں ہے کسی متاثرہ مریض سے یہ صحت مند شخص کو نہیں ہوتا، یہ ایک مخصوص مچھر aedes aegypiti کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، ہر سال بائیس ہزار سے زائد افراد اس بخار کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس بخار کی علامتیں چار سے چھ دن میں ظاہر ہوتی ہیں، اچانک 104 فارن ہائٹ تکتیز بخار ، سر میں درد،جوڑوں میں درد،آنکھوں کے پیچھے درد، قے، جسم پر سرخ دھبے اس بخار کی علامات میں شامل ہیں، اگر اس کے علاج پر توجہ نا دی جائے تو یہ ڈینگی بخار ڈینگی ہیمرجک فیور میں تبدیل ہو جاتا ہے،جس کے باعث خون میں سفید خلیے بہت کم ہوجاتے ہیں، بلڈ پریشر لو ہوجاتا ہے، مسوڑوں، ناک، منہ سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے اور جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، انسان کومہ میں چلا جاتا ہے اور اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ڈینگی بخار کو ایک بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کیا جاتا ہے، ٹیسٹ اگر مثبت آجائے تو فوری طور پر علاج شروع کیا جاتا ہے، اس مرض کے لئے کوئی مخصوص دوا تو دستیاب نہیں ہے، ڈاکٹر مریض کے جسم میں نمکیات پانی کی مقدار کو زیادہ کرتے ہیں اور ساتھ میں انہیں درد کو کم کرنے کی ادویات دی جاتی ہیں، ڈینگی ہمیرجک فیور میں پلیٹ لیٹس لگائی جاتی ہیں،اس مرض سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے.انسان خود کو مچھر کے کاٹنے سے بچائے۔
ڈینگی بخار سے بچنے کے لئے یہ احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں، سب پہلے تو کسی بھی جگہ پر پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اگر پانی ذخیرہ کرنا ہو تو اس کو لازمی طور پر ڈھانپ دیں، گھر میں لگے پودوں اور گملوں میں پانی جمع نا ہونے دیں، کوڑاکرکٹ جمع نہ ہونے دیں، پرانے ٹائر خاص طور پر ان مچھروں کی آماجگاہ ہوتے ہیں انہیں گھر پر نا رکھیں، گھر میں پانی کی ٹینکی کو ڈھانپ کر رکھیں، باتھ روم میں بھی پانی کھڑا نا ہونے دیں اور اس کا دروازہ بند رکھیں، روم کولرز میں سے پانی نکال دیں، اسٹور کی بھی صفائی کریں اور وہاں بھی اسپرے کریں، اگر تب بھی مچھروں سے نجات نا ہو تو مقامی انتظامیہ سے اسپرے کی درخواست کریں۔
اپنی حفاظت کے لئےمچھر مار اسپرے استعمال کریں یا مچھربھگائو لوشن استعمال کریں، پورے بازو کی قمیض پہنیں اور جو حصہ کپڑے سے نا ڈھکا ہو جیسا ہاتھ ، پائوں، گردن وغیرہ وہاں پر لوشن لگائیں، گھر میں جالی لگوائیں اور بلاضرورت کھڑکیاں نا کھو لیں، ڈینگی کا مچھر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ کاٹتا ہے، اس لئے اس وقت خاص طور پر احتیاط کریں، سوتے وقت نیٹ کے اندر سوئیںاورکوائیل کا استعمال کریں۔
ڈینگی کا علاج اگر بروقت شروع کروالیا جائے تو مریض جلد صحت یاب ہو جاتا ہے، اس بات کا خاص خیال رکھاجائےکہ مریض کوپانی ،جوس ،دودھ ،فروٹس اور یخنی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کروایا جائے، سیب کے جوس میں لیموں کا عرق بھی مریض میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، اس کو ہرگز بھی اسپرین نا دی جائے۔
تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر جو ڈینگی مچھر کے افزائش کے ماہ ہیں، ان میں متواتر اسپرے کروائیں، جہاں پانی کھڑا ہو وہاں پر خاص طور پر اسپرے بہت ضروری ہے۔
عوام میں اس مرض سے بچنے کے لئے آگاہی پھیلائیں، اسپتالوں میں ڈینگی بخار سے متعلق معلوماتی کائونٹر قائم کئے جائیں، اس مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے اگر ان مچھروں کی افزائش نا ہونے دی جائے، 2011 جیسی صورتحال سے بچنے کے لئے تمام صوبائی حکومتوں اور مقامی حکومتوں کو کام شروع کردینا چاہئے۔
Javeria Siddique 
Twitter @javerias

یہ تحریر 2015 میں شائع ہوئی ۔

Posted in india, Javeria Siddique, Pakistan

شہزادہ، شہزادی اور سپہ سالار تحریر جویریہ صدیق

شہزادہ، شہزادی اور سپہ سالار

تحریر جویریہ صدیق

ایک دفعہ کا ذکر ہے دور دراز ایک ریاست تھی اس ریاست پر دو افراد کی حکمرانی تھی۔ایک شہزادہ اور ایک شہزادی ہر وقت لڑتے اور ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے بھی متحمل نہیں تھے ۔دونوں ایک دوسرے سے خائف رہتے تھے لڑتے جھگڑے اور اپنے دکھ  سپہ سالار کو سنانے پہنچ جاتے۔سپہ سالار بہت طاقت ور تھا۔شہزادہ اور شہزادی 

کبھی سپہ سالار سے مدد مانگتے، کبھی روتے تو کبھی شکایتیں کرتے۔جب بات نہ بن پاتی تو پڑوس کی ریاستوں کو خط لکھتے انہیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کرتے ۔

دونوں ریاست کے مخلتف حصوں پر حکمرانی کرتے رہےلڑتے رہتے اور عوام بدحالی کا شکار ہونے لگے۔ شہزادے  اور شہزادی کو اچھے پکوان اچھے لباس اور اچھی سواری کا بہت شوق تھا۔یہ شوق عوام کی خون پسینے کی کمائی پر لگان لگا کر وصول کیا جانے لگا۔ریاست کے خزانے کو بے دریغ لوٹا جانے لگے۔عوام غریب سے غریب ہوتے گئے اور شاہی خاندان امیر سے امیر ہوتے ہوگے ۔شہزادے اور شہزادی نے جب یہ دیکھا کہ سپہ سالار کے تیور کچھ ٹھیک نہیں تو اپنی ناجائز دولت کا بہت سا حصہ کشتیوں میں چھپا کر دور سمندر پار پردیس منتقل کردیا۔شہزادے نے بھی جب تھوڑی طاقت حاصل کی تو اس نے شہزادی کو بہت تنگ کرنا شروع کردیا تو وہ حکمرانی چھوڑ کر چلی گئ اور دور کی ریاست میں آرام دہ زندگی بسر کرنے لگی۔

پھر وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا سپہ سالار ایک دن خود اقتدار پر قابض ہوگیا ۔ شہزادےکو ملک بدر کردیا ۔جان بچ گئ شہزادہ آرام سے اپنی دولت پر عیش کرنے لگے لیکن حکمرانی کی یاد انہیں ستاتی تھی۔سپہ سالار کے دور میں بدامنی میں اضافہ ہوگیا جب اس سے کچھ بن نہ پایا وہ حکومت کرنے کے لئے نہیں تیار کیا گیا تھا اسکا فرض ریاست کی حفاظت تھا۔جب معاملات ہاتھ سے نکل گئےتو اس نے شہزادہ اور شہزادی کو معاف کردیا اور واپس ریاست کی حکمرانی دے دی۔

اب شہزادہ اور شہزادی عمر رسیدہ ہوگےتھے اور اپنی اولاد کو حکمرانی کے لئے تیار کرچکے تھے۔شہزادی کے بچے نئے  سپہ سالار کو اپنا دوست گردانتے تھے لیکن شہزادے کے بچے اپنی سینا اور سپہ سالار سے خائف رہے ۔شہزادہ اور شہزادی کے خاندانوں میں دوستی بھی ہوگئ تھی تو دونوں نے طے کیا مل کر بانٹ کر کھائیں گے لیکن شکایتیں لے کر سپہ سالار کے پاس نہیں جائیں گے۔اس کے پاس اگر جنگ لڑنے کی طاقت ہے تو ہمارے پاس بھی دولت کی طاقت ہے جس سے کچھ بھی ممکن ہے۔

20190711_171945

دونوں شاہی خاندان امیر سے امیر ترین ہوتے گئے خوب دولت لوٹی دنیا کی کوئی ایسی ریاست نہیں بچی کہ انکی دولت موجود نہ ہو۔شہزادہ شہزادی کے خاندان کے پاس بہت سے محلات آگئے، انکے بچے دنیا کے مہنگے ترین لباس پہننے لگے ،سب سے مہنگی سواری میں سفر کرنا انکے لئے عام بات تھی۔کچھ لوگ سپہ سالار کو شکایتیں کرنے لگے لیکن سپہ سالار بیرونی ریاستوں کے خطروں کو بھانپ چکا تھا اور نیا سپہ سالار بدامنی اور سرحدوں پر شورش کو ختم کرنے میں لگا رہا ۔

پر کچھ سچ بولنے والے قلم کاروں نے شہزادہ شہزادی کی دولت کا پول کھول دیا ۔بس پھرکیا تھا شاہی خاندانوں میں آہ و پکار مچ گئ۔سپہ سالار کے آگے رونے لگے ہمیں معافی دلوائی جائے ۔تاہم معاملہ کوتوال میں تھا اور شاہی خاندانوں کے بہت سے شہزادے شہزادیاں قید ہوگے۔درباریوں سے مدد مانگی گئ تجوریوں کے منہ کھول دیے گئے وہ درباری سر جھاڑ منہ پھاڑ بین کرنے لگے کہ ہمارے شہزادے شہزادی معصوم ہیں انکو چھوڑ دو۔اگر انکو نہیں چھوڑا گیا ریاست تباہ ہوجائے گی۔

پھر ریاست کے وسط سے ایک اور شہزادہ نمودار ہوا اس نے سب کو امید دلائی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن ریاست کی قسمت ہی اچھی نہیں تھی۔اس شہزادے کی جیب میں بھی کھوٹے سکے تھے اور درباری اسکے دربار کا حصہ بن گئے اور ریاست میں روٹی 20 روپے کی ہوگئ ۔ ۔

Screenshot_20190711-171820_Chrome

Posted in Javeria Siddique, Pakistan

پاکستان توڑو مہم پی ٹی ایم

IMG-20190502-WA0080

تحریر جویریہ صدیق

پی ٹی ایم پاکستان توڑو مہم 
ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ نوجوانوں نے 2014 میں  پی ٹی ایم (  جس کا مطلب میرے مطابق پاکستان توڑو موومنٹ ہے) کی بنیاد رکھی اور وی او دیوا کے رپورٹر کے 2016 کے ٹویٹ میں آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان نوجوانوں کے ہاتھ میں جو جھنڈا ہے وہ آزاد پشتونستان کا ہے۔بعد ازاں رپورٹر نے تو اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا لیکن تصاویر ہر جگہ وائرل ہوگی۔
IMG-20190502-WA0084
ان تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان تصاویر میں مرکزی قیادت منظور پشتین کررہا ہے جو پشتون تحفظ موومنٹ کا چیرمین ہے۔
یہ ایک چھوٹی سی غیر فعال تنظیم تھی اور اس کے رکن عہدیداروں کی تعداد صرف اتنی تھی کہ انگلیوں پر گن لی جائے ۔پھر کراچی میں ایک خوبرو جوان نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔یہ خبر منظر عام پر آتی ہی پاکستان کے تمام طبقہ فکر کے لوگ غم و غصے میں ڈوب گئے ۔ہر طرف سے مطالبہ آنے لگا کہ راو انوار کو سزا دو۔یہ وہ ہی راو انوار ہے جس کو پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری اپنا بچہ کہہ چکے ہیں ۔جہاں ایک طرف پاکستانی نقیب کے لئے انصاف کی جہدوجہد کررہے تھے دوسری طرف پاکستان توڑو موومنٹ نے سوچا اس معصوم لاش کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال دیا جائے اور اس قتل کو لسانیت ، قومیت اور فرقہ واریت کی رنگ دے دیا جائے ۔اس سب کی آڑ میں آزاد پشتونستان کا کام کیا جائے اور افغانستان بھارت سے اس ضمن مدد لی جائے ۔
کوئی بھی تحریک بنا پیسے کے تو نہیں چل سکتی اور وہ نوجوان جو پہلے میلے کچلے کپڑوں میں سڑکوں پر پھرتے تھے وہ یکدم قیمتی گاڑیوں میں آگئے ۔اب یہ پیسے کہاں سے آرہے تھے اور کیسے آرہے تھے اس پر سوال اٹھنے لگے۔ریاست کا دل اتنا بڑا ہے کہتے رہے ہمارے بچے ہیں یہاں تک کہ پی ٹی ایم کے دو ممبر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر اسبملی پہنچ گئے ۔پی ٹی آئی نے بھئ اتنا بڑا دل دکھادیا اپنے امیدوار کو دستبردار کرالیا کہ یہ ہمارے بچے اسمبلی آسکیں ۔ان سے میں سے ایک فوج کو گالیاں کھلے عام دیتا رہا اور پنجابیوں کو کالا کالا کہتا رہا۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر ریاست پاکستان اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا جن کی بائیو میں پی ٹی ایم لکھا ہوتا لیکن اکاونٹ جلال آباد افغانستان اور کلکتہ انڈیا سے آپریٹ ہورہے ہوتے تھے۔ان اکاونٹس کا ایک ہی مقصد نقلی پشتون بن کر پاکستان اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنا اور جعلی تصاویر شئیر کرکے یہ شور مچانا کہ فوج پشتون عوام پر ظلم کررہی ہے جبکے یہ تصاویر اکثر افغانستان کی نکلتی۔پاکستان کے محب وطن سوشل میڈیا صارفین ان جھوٹے اکاونٹس کا  پردہ چاک کرنا شروع ہوگئے ۔
IMG-20190502-WA0085
دوسری طرف پاکستان کا نام نہاد لبرل میڈیا این جی اوز والی خواتین اور اینٹی پاکستان نظریہ رکھنے والے صحافی تجزیہ نگار بھی اس تنظیم کا حصہ بن گئے اور ان کے جلسوں میں انکی مخصوص ٹوپی پہن کر پارٹی کارکنان کی طرح شرکت کرنے لگے ۔کچھ اپنی شناخت سے تنگ لبرل بنے کی کوشش میں سوشل میڈیا صارفین بھی ان ریلیوں میں جانے لگے کہ ملک کے خلاف بات کرکے ہمیں بھی کوئی فارن ٹرپ یا فارن فنڈنگ مل جائے ۔
اسکے ساتھ عالمی میڈیا وہ حصہ جو پاکستان مخالف ہے اور بھارت کے قریب ہے وہ بھی پی ٹی ایم کی حمایت میں کود پڑا ۔جس میں وی او دیوا ، وی او اردو ، بی بی سی اردو اور نیویارک ٹائم شامل رہا۔وائس آف امریکہ باقاعدہ فیس بک اور ٹویٹر پر سپانسر کرکے پی ٹی ایم کے رہنماوں کے انٹرویو نشر کرنے لگے۔سب کا مشترکہ یہ ہی پروپیگنڈا کہ پاکستان میں پشتونوں پر ظلم ہورہا ہے۔
IMG-20190502-WA0083
ویسے یہ سب لوگ کہاں تھے جب طالبان لوگوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔اب جب ضرب عضب اور رد الفساد کے بعد امن ہوگیا ہے تو اپنی گندی سیاست چمکانے کے لئے بلوں سے باہر گئے۔پی ٹی ایم ، غیر ملکی میڈیا اور آزاد پشتونستان کی سازش زیادہ دیر چھپی رہی اور سب کچھ کھل کر سامنے آنے لگا۔
دہشتگردی کی جنگ میں سب نے قربانیاں دی چاہئے فوج ہو عوام ۔پشتونوں سے اس لئے علاقے خالی کروائے گئے کیونکہ انکے ہوتے ہوئے شر پسندوں کے خلاف آپریشن نہیں ہوسکتا تھا۔چیک پوسٹ اس لئے بنائی گئ کہ ہم وطنوں اور غیر ملکیوں میں فرق معلوم ہوسکے کوئی دہشتگرد عوام میں نا گھس جائے ۔وطن کارڈ اس لئے بنایا کہ آپ کی شناخت میں آسانی ہو۔یہ سب آپ کی حفاظت کے لئے کیا گیا۔
اب آزاد پشتونستان کا نعرہ لگانے والے کس طرح پاکستانی پشتون کے حامی ہوسکتے ان کا ایجنڈا نفرت اور تشدد پر مبنی ہے۔یہ اس وقت شروع ہوا جب ملک میں امن ہوچکا ہے اور آپریشن والے علاقوں میں بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے۔اس موقعے پر ایسی تحریک بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔اسکو سپورٹ کرنے والے 99 فیصد لوگ پاکستان مخالف ہیں ۔ان کا فیس بک ٹویٹر اور تجزیے دیکھ لیں انکا کام صرف پاکستان کو توڑنا ہے۔
ہم 71 میں نہیں تھے لیکن اب سازش سمجھ آگئ ہے کہ پاکستان توڑو مہم اور شیخ مجیب الرحمن کا طریقہ واردات ایک ہے۔پہلے رنگ نسل قومیت کا نعرہ لگا کر نوجوانوں کو ریاست کے خلاف کرو بعد میں الگ ملک کا مطالبہ کردو۔71 میں بھی بہت سے سیاست دان صحافی تجزیہ نگار انکو ناراض بچے کہتے ہوگے عالمی میڈیا انکو سپورٹ کرتا ہوگا اور پاکستان کے خلاف اس کی فوج کے خلاف جھوٹی کہانیاں اس طرح پھیلائی گئی جیسے آج پی ٹی ایم کے سوشل میڈیا اکاونٹس افغانستان عراق یمن کی تصاویر کے پی کے اور وزیرستان کی بنا کر شئیر کرتے ہیں ۔اس ہی پروپیگنڈے نے ہمارے ہم وطنوں کے حوصلے پست کئے ہوگے وہ تذبذب کا شکار ہو کر جنگ ہار گئے ملک ٹوٹ گیا ۔
پر اب 71 کی نہیں 27 فروری 19 کی تاریخ دہرائی جائے گی ۔دشمن کی ہر جنگ کو ناکام بنایا جائے گا چاہیے وہ فضا میں ہو،زمین پر ہو، پانی میں ہو ،میڈیا پر ہو یا سوشل میڈیا پر پاکستانی قوم اپنی فوج کے ساتھ دشمن کے دانت کھٹے کردے گی۔دشمن نے جنگ کی حکمت عملی تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ انفارمیشن کی جنگ آئی ایس پی آر جیت گیا۔آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔
پی ٹی ایم کو غیر ملکی فنڈنگ مل رہی جس میں این ڈی ایس اور راء سرفہرست ہے۔اس میں افغانستان جلال آباد میں بھارتی قونصل خانہ سرفہرست ہے۔یہ تنظیم ریاست کے خلاف عناصر کے ساتھ رابطے میں ہے۔کل وائس آف امریکہ کا انٹرویو میں منظور پشین لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا ہم اینٹی ٹیررسٹ تنظیم ہیں اور ہم دہشت گردوں اور ان سہولت کاروں کو آشکار کررہے کوئی پوچھے تم کیا سیکورٹی فورسز ہو تم کیا خفیہ ایجنسی ہو جو تمہیں یہ معلومات ہیں اور کیا  تم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی نہیں ۔
تم لوگ وہ ہو نقیب اللہ محسود کی لاش کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے گدھ کی نوچتے رہے ۔اس معصوم کے قتل کو اپنے آزاد پشتونستان کے ناپاک ارادے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہو۔جو چندے کے باکس ان کے جلسوں میں آتے ہیں اس میں اتنے پیسے بھی جمع نہیں ہوجاتے کہ ایپل کے ائیر پوڈ خریدے جاسکیں اس لئے پی ٹی ایم اپنی فنڈنگ کا حساب دیں ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کے مطابق 22 مارچ 18 کو این ڈی ایس نے پی ٹی ایم کو پیسے دئے ،اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے دھرنے کے لئے راء نے فنڈنگ دی،8 مئی 18 کو انڈین قونصل خانے نے طورخم ریلی کے لئے پیسے دئے۔
IMG-20190502-WA0086
جب پی ٹی ایم کے دو بڑے مطالبے مان لئے گئے جن میں مائنز کا ختم کرنا اور چیک پوسٹ ختم کرنا مان لئے گئے تو اب بھی وطن مخالف مہم کیوں ۔جہاں تک بات ہے راو انوار کی تو پی ٹی ایم بلاول اور آصف علی زرداری سے اس حوالے سے سوال کیوں نہیں کرتی۔جنوری 2018 کے دھرنے کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ روڈ سے لینڈ کروز پر آگئ متعدد دورے جلسے کئے ایک سال میں یہ نوٹوں کی بارش کیسے ہوئی اس پر یہ تنظیم جواب دہ ہے۔کوئی شخص اس ملک کے آئین سے اوپر نہیں ہے اگر کوئی شخص اس ملک کو توڑنے کی طرف گامزن ہے تو وہ غدار ہے لیکن آج کل کے مصلحت آمیز منافق دانشور انکو سماجی کارکن اور امن کا داعی کہتے ہیں ۔کیونکہ ان کا دین ایمان صرف پیسہ ہے ۔عدم تشدد کی تحریک کا لبادہ اوڑھ کر اصل میں آزاد پشتونستان کی سازش کی جارہی ہے ۔یہاں پر میں آپ سے سوال کرتی ہو آپ ملک کو توڑنے کی سازش کرنے والو کے ساتھ ہیں یا ملک کو جوڑ کر رکھنے والی فوج کے ساتھ ہیں ۔ میں ریاست کو گالی دینے والو کے ساتھ نہیں، میں ریاست کے خلاف کام کرنے والو کے ساتھ نہیں، جو افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے اداروں اور شہیدوں کو گالی میں اسکو امن کا داعی لیڈر نہیں قرار دے سکتی ۔
ہمارے پشتون نمائندے اس وقت اسمبلی میں موجود ہیں اس ملک کا وزیر اعظم وزیر دفاع سب پشتون ہیں وہ ہئ ہمارے نمائندے ہیں پی ٹی ایم ہماری نمائندہ جماعت نہیں ویسے بھی یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹر نہیں یہ جماعت بھی نہیں ایک چھوٹی سی لسانی تنظیم ہے جو صرف نسل پرستی کو فروغ دے کر آزاد پشتونستان کا حصول چاہتی ہے ۔
Posted in Kitchen gardening, Pakistan, Uncategorized

موسم سرما کی سبزیاں اور گھریلو باغبانی

تحریر جویریہ صدیق

فیس بک پر آپ سب نے وہ ویڈیو تو دیکھی ہو گی جس میں ایک شخص کمال مہارت سے نقلی بند گوبھی بنا رہا ہے۔اسکے ساتھ ساتھ بہت بار دوکان دار سبزیوں پر رنگوں والے سپرے بھی کررہے ہوتے ہیں جس سے وہ تروتازہ نظر آئیں ۔اکثرہری سبزیوں میں ہرا رنگ کا کیمیکل ڈائی لگایا جاتا ہے دیگر سبزیوں پر چمک کے لئے گاڑی کی پالش والا اسپرے بھی کردیا جاتا ہے۔بہت سے کاشتکار بھی ایک مخصوص کیمکل کا انجیکشن سبزیوں کو لگا دیتے ہیں جس سے سبزیوں کا وزن بڑھ جاتا ہے۔دیکھنے میں یہ سبزیاں بہت تروتازہ لگتی ہیں لیکن اصل میں کیمکل کی وجہ سے زہر آلود ہو جاتی ہیں۔

یہ سب انٹرنیٹ پر دیکھ کر بہت سے لوگ خواہش کرتے ہیں کیوں نا ہم گھر پر کسی جگہ پر سبزیوں اگالیں۔کیمیکل اور سپرے سے پاک سبزیاں خود اگائیں اور مزے سے کھائیں ۔گھر میں سبزیاں لگا کر ہم آرگینک طریقوں سے صحت مند اور کیمیکلز سے پاک غذا کا حصول ممکن بنا سکتے ہیں۔تاہم بہت سے لوگ طریقہ کار سے واقف نہیں اس ہی لئے ہم گھر میں سبزیوں کی کاشت کے حوالے سے طریقہ کار شئیر کریں گے تاکہ سب گھر پر آسانی سے سبزیاں اگالیں ۔سب سے پہلے جگہ بیجوں کا انتخاب اور وہ سبزی جو گھر میں شوق سے کھائی جاتی ہو  زمین تیار کی جائے ۔اگر گھر پر لان یا اضافی زمین نہیں تو سبزیاں بڑے گملوں، بوتلوں کے کریٹ، پلاسٹک کے پاٹس میں بھی سبزیاں لگائی جاسکتی ہیں ۔موسم سرما میں ہم مٹر ،پالک ، ٹماٹر،بروکلی، شلجم ، سرسوں، سلاد پتہ ، شملہ مرچ، سپرنگ انین، چقندر، میتھی،لہسن،مولی، کدو، گاجر،آلو،سیلری، پیاز،پودینہ،میتھی،مرچ اور بند گوبھی لگا سکتے ہیں۔اسکے ساتھ ہربز جیسے منٹ،اورگینو،پارسلے،روزمیری اور تھائم گھر میں لگایا جاسکتا ہے۔تمام بیج اور پنیریاں بازار میں اسانی سے دسیتاب ہیں۔

مٹی کی تیاری اگر زمین میں سبزیاں لگانی ہوں تو مٹی کو دس سے بارہ انچ تک نرم کرے اُس میں گوبر کی پرانی کھاد، گلے سڑے پتوں کی کھاد یا گھر میں بنائی ہوئی کچن ویسٹ کھاد کا استعمال کریں،مٹی کی تیاری گملوں اور کریٹس کے لیے بھی ایسے ہی کرنی ہے۔اس کے بعد اگلہ مرحلہ بیج لگانے کا ہے مطلوبہ بیجوں کو تیار کردہ جگہ میں لگا کر پانی دیا جاتاہے ۔

جس جگہ بھی سبزیاں لگائی جائیں وہاں اس بات کا خیال کریں کہ وہاں ہوا کا گزر ہو اور سورج کی روشنی کا گزر 4 سے 5  گھنٹے ضرور ہو۔اگر سبزی زمین کے بجائے کریٹ یا گملے کی کیاری میں لگائی جارہی ہے تواس میں بوری یا کاٹن کا کپڑا بچھائیں ۔اس کے بعد میں تیار شدہ مٹی ڈالیں ۔جس میں کھیت یا نہر کی مٹی ، پرانے پتے اور گوبر کی کھاد وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔اگر اپ ایسی کھاد نہیں بنا سکتے تو نرسری سے تیار کھاداور مٹی خرید لیں ۔ ویسے گھر میں بھی اورگینک کھاد بنانا بہت آسان ہے۔ گھر میں روزمرہ میں بچ جانے والے پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے، بچا ہوا کھانا، پرانے  پتے، چائے کی استعمال شدہ پتی اور جانوروں کا فضلہ گوبر مٹی یا بند باسکٹ میں دباتے جائیں دو سے تین ماہ میں بہترین کھاد تیار ہوجائے گی۔ مٹی میں صرف ایک حصہ کھاد ملائیں۔ اب اس کھاد ملی مٹی میں آپ سبزیاں لگائیں۔

 سبزیاں لگانے کے بعد باقاعدگی سے گوڈی کریں ۔پودوں میں 18 انچ کا فاصلہ موزوں ہے.ان سبزیون کو کیڑوں سے بچانے کے لئے کوئی زہریلا اسپرے استعمال نہیں کیا جایے ، پانی میں ایک چمچ برتن دھونے کا لیکویڈ ، سرکہ اور مرچیں ملا کر پودوں پر سپرے کرتے ہیں کوئی کیڑا بھی پودوں کے نزدیک نہیں آئے گا۔

شروع میں چھوٹے اور کم پودوں کے ساتھ کام کا آغاز کریں۔ایک بعد یاد رکھیں کہ موسم کی سبزیاں موسم میں کھائیں اور بہت چمک دار سبزیاں نا خریدیں ۔کیمیکل والی سبزیاں معدے کی بیماریوں اور کینسر کا باعث ہیں۔